اس جہاں میں جانے کتنے آدمی کے چہرے ہیں 76

آخری گولہ

تحریر: پرویز مائوس

شُوں ں ں ں ………ڈم م م ……………… زور دار آواز چاروں طرف فِضاؤں میں گونج گئی اور پھر خاموشی چھا گئی ……،،

لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی، ایک شور کے ساتھ گاؤں کے تمام لوگ یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے، زمیندار کے مکان پر گولہ گرا ۔۔۔۔۔،،
زمیندار کے گھر پر گولہ گرا۔۔۔۔۔،، گلابو جو صُبح سویرے گاؤ خانے سے مویشیوں کا گوبر سمیٹ کر مکان سے تھوڑی دور ڈھیر پر ڈالنے نکلی تھی اُس کے کانوں میں یہ آواز پڑتے ہی وہ قہقہے لگاتے ہوئے کہنے لگی،، زمیندار کے گھر پر گولہ گرا۔۔۔۔۔،، زمیندار کے گھر پر گولہ گرا ۔۔۔۔۔،،وہاں سے گُزرنے والے لوگ اُس کی طرف حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے، اُن کی نظروں میں اس وقت اُس کی حیثیت ایک پاگل کی تھی، ایک نے کہا،، اسی منحوس کی بد دُعا لگ گئی زمیندار کو، ہر وقت کہتی رہتی تھی کہ زمیندار کے گھر پر گولہ گرے۔۔۔۔۔،زمیندار کے گھر پر گولہ گرے۔۔۔۔۔،، یہی کہتے ہوئے گلابو ہاتھ میں خالی ٹوکرا لے کر گھر کی طرف چل پڑی تو گاؤں کے ایک آدمی کو دوسرے سے کہتے سُنا،، بڑا نیک اور ہمدرد تھا بیچارہ شابوخان مر گیا۔۔۔،، تو گلابو کے چلتے قدم اس طرح تھم گئے جیسے اُس کے تلوؤں کے ساتھ کسی نے تارکول لگا دیا ہو،،
زمیندار مرگیا اچھا ہوا ۔۔۔۔۔،، زمیندار مر گیا اچھا ہوا۔۔۔۔۔،،زمیندار مرگیا ۔۔۔۔۔،، گلابو کیا ہو گیا تجھے؟ تمام گاؤں زمین دار صاحب کے غم میں رنجیدہ ہے اور تُو ہے کہ خوشیاں منارہی ہے! احسان فراموشی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، سرحد پار سے ہونے والی گولہ باری کے دوران کئی مرتبہ اُنہوں نے تجھے اپنے یہاں پناہ دی، یاد ہے تجھے کہ بھول گئی؟ احسان فراموش کہیں کی! لا حول ولا قوة کہہ کر امام صاحب آگے بڑھ گئے تو گلابو نے آسمان کی طرف گردن اُٹھا کر کہا،، تُو اگر رحیم ہے تو قہار بھی ہے! مجرم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے پہلے ہی سزا دیتا ہے، جو کسی کو نظر نہیں آتا وہ سب تُو دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔جو لوگ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں انہیں زمیندار کی دی ہوئی پناہ تو دکھائی دی لیکن اُس کے دئیے ہوئے زخم کسی کو نظر نہیں آئے، آتے بھی کیونکر؟ وہ زخم تو میرے جسم پر نہیں میری روح پر لگے ہوئے تھے، سب کے لبوّں پر بس ایک ہی جُملہ رقص کر رہا ہے، بیچارہ زمیندار بڑا نیک اور ہمدرد تھا،،،،، زمیندار کے چمچے! اچھا ہوا زمیندار مرگیا،، میں آزاد ہو گئی ۔۔۔۔۔،،زمیندارکے مکان پر گرنے والے گولے نے گلابو کی روح پر لگے ہوئے زخم تازہ کر دئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آٹھ سال قبل میر محمد سے بیاہ کر وہ اس گاؤں میں آئی تھی جو حدِ متارکہ پر واقع تھا تقسیم وطن کے وقت دریا کے آرپار یہ ایک بہت بڑا گاؤں جو آٹھ سو چُولہوں پر مشتمل تھا اُن کا مکان بھی دریا کے پار تھا ،جب وہ فقط تین برس کا تھا اپنی دادی زُلیخا کے ساتھ شادی کی خوشیوں میں شریک ہونے دریا کے اس پار آیا تھا رات کو اچانک شور مچا کہ قبائلی حملہ ہوگیا ہے، چاروں طرف افرا تفری مچ گئی لوگ ادِھر اُھر بھاگنے لگے، حملہ آور ہر چیز کو روندتے ہوئے آندھی کی طرح آگے بڑھتے ہوئے شہر تک پہنچ گئے کہ دریں اثنا اس ملک کی فوج بھی تمام علاقے میں پہنچ گئی پھر معلوم نہیں کس بد بخت کے حکم سے اس گاؤں کے بیچوں بیچ ایک لکیر کھینچ دی گئی جس نے آٹھ سو چُولہوں والے گاؤں کو ڈیڑھ سو چولہوں میں تبدیل کر کے کئی کنبوں کے سینوں میں تقسیم کا خنجر اتار دیا ۔۔۔۔۔،،کئی دنوں تک رونے دھونے کے بعد زُلیخا نے اِسے خُدا کی مرضی سمجھ کر میرو کو اپنے بوڑھاپے کا سہارا سمجھ کر پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا لیکن خُدا کی منشا کے آگے کس کی چلی ہے جو زُلیخا کی چلتی،، وہ اکثر پہروں دریا کے کنارے بیٹھ کر حسرت بھری نظروں سے اُس پار دیکھتی رہتی اُس کے چہرے کی جُھریوں میں اپنوں سے جُدائی کا غم صاف جھلکتا تھا،سامنے اپنا پشتنی مکان دیکھ کر اُس کا کلیجہ کٹ جاتا وہ سوچتی کاش! وہ کوّا بن کر اُس پار جائے اور اپنے مکان کے دالان کا ایک پھیرا لگا کر آئے لیکن پھر بے بسی میں آنسو بہاتے ہوئے دریا کی طرف دیکھتی ، دریا میں اُچھل اُچھل کر بہتا پانی اُسے اپنے ارمانوں اور رشتوں کا خون لگ رہا تھا، پھر ایک دن یہی حسرت لے کر وہ مرگئی کہ آج نہیں تو کل اس گاؤں کے درمیان کھینچی ہوئی یہ خونی لکیر مٹ جائے جسے دونوں ممالک نے ایل او سی (L.O.C)کا نام دے رکھا تھا اور بچھڑے ہوئے رشتے ایک بار پھر یکجا ہو جائیں۔۔۔۔۔،،،
میرو جوکہ ملٹری میں بطور قُلیPorterکام کرتا تھا شادی کے چھ سال بعد ہند پاک افواج کے درمیان ہونے والی گولہ باری میں ایک مورٹر شل کا شکار ہو گیا اور اپنے پیچھے تین معصوم بچے اور ایک خوبصورت بیوی چھوڑ گیا،، چونکہ گلابو ابھی جوان اور خوبصورت تھی اُس کی زمین جائیداد کو دیکھتے ہوئے کافی جگہوں سے شادی کی پیشکش آئی لیکن اُس نے بچوں کے سہارے زندگی گُزارنے کو ترجیح دی پھر وہ اپنے تین بچوں کی پرورش میں اس قدر مصروف ہو گئی کہ اُسے اپنی جوانی ڈھلنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔۔۔۔۔،،
دونوں ممالک کے درمیان جب بھی کوئی اشتعال انگیز بیان بازی ہوتی تو اُس کا نزلہ گولہ باری کی صورت میں حدِ متارکہ پر واقع اس گاؤ ں کے دونوں اطراف بالخصوص پڑتا تو کچھ لوگ اپنا گھر بار اور مال مویشی چھوڑ کر اپنی زمین میں کھودے ہوئے مورچوں میں گُھس جاتے اور کچھ اپنی جان بچانے کے لئے زمیندار کے یہاں پناہ لینے چلے جاتے ،کیونکہ زمیندار شابو خان کابہت وسیع مکان پہاڑ کی اوٹ میں تھا جہاں گولہ باری کا کوئی احتمال نہیں تھا اور نہ آج تک کوئی گولہ اس طرف گرا تھا اُس کا باپ گابو خان جوکہ نہایت ہی رحمدل اور ہمدرد انسان تھا نے گولہ باری ہونے کی صورت میں لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا ہال تعمیر کیا تھا جس میں کم از کم تیس چالیس لوگ آرام سے پناہ لے سکتے تھے،،
اُس روز بھی دونوں ممالک کے لیڈران کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد سرحد کے دونوں اطراف افواج کے درمیان گولہ باری کا سلسلہ شروع ہو گیا، لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے، بچوں کے اسکول چھوٹ گئے، مال مویشی پیاس اور بھوک سے بلکنے لگے، اب کی مرتبہ گولہ باری میں کافی شدت تھی اور سرحد پار کی افواج کا ہدف کنٹرول لائن کے متصل رہائشی علاقے کے وہ کوٹھے تھے جنہیں لوگوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ایک ایک اینٹ جوڑ کر بنایا تھا، اس علاقے میں پہاڑ کے عقب میں ایٹلری کا ایک اسلحہ ڈپو تھا، اور یہ جوان اس علاقے کی حفاظت پر مامور تھے، اس لئے اُس پار کی فوج اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنانے کی تاک میںرہتی تھی لیکن اسلحہ ڈپو پہاڑ کے درے میں ہونے کی وجہ سے توپوں سے نکلنے والے گولے آدھے راستے میں ہی رہائشی علاقوں پر گرتے جس سے ہر بار دو چار لوگوں کو بغیر کسی تقصیر کے نگل جاتے، نہ جانے ان گولوں پر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کوئی چِپ یا خُفیہ کیمرہ نصب کیا گیا تھا کہ ہر بار یہ کسی نہ کسی غریب کے کوٹھے پر ہی گرتا، پچھلے ستر برس سے یہ گولہ باری ان لوگوں کا مقدر بن چکی تھی، تب سے ہی ان لوگوں کی مانگ رہی کہ یہاں کے لوگوں کی حفاظت کے لئے زمین دوز بینکر بنائے جائیں، ویسے تو ہر الیکشن میں پارٹیوں نے اپنے مینی فیسٹو میں اس مطالبے کو سر فہرست جگہ دی ہوتی لیکن الیکشن کی بعد یہ مطالبہ دبیز فائلوں کے نیچے دب جاتا یا پھر سیاست اور پارٹی بازی کا شکار ہو جاتا اور سرحدوں پر بسنے والے یہ لوگ اپنے وطن عزیز کے لئے بتدریج قربان ہوتے رہتے، ان کے ووٹوں پر جیتنے والے نیتا لوگ شہر کی بڑی بڑی عالیشان کوٹھیوں میں عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے۔۔۔۔۔،، اُن کے لئے ان لوگوں کی قیمت ایک ووٹ سے زیادہ کچھ نہیں تھی اور آئے دن مرنے والوں کے لواحقین کو آٹے میں نمک کے برابر معاوضہ دے کر حُکام اپنا فرض ادا کر دیتے، انگریز کی مکاری اور سفاکی کی بدولت ہوئی اس وطن کی تقسیم کا سب سے زیادہ خمیازہ انہی لوگوں کو بھُگتنا پڑا جو حدِ متارکہ کے ارد گرد بستے تھے،،، شام تک جب گولہ باری میں کوئی کمی نہ آئی تو تمام گاؤں والوں کی طرح گلابو بھی اپنی اور بچوں کی جان بچانے کے جتن کرنے لگی، بے سہارا، اوپر سے عورت ذات ساتھ میں معصوم بچے، جائے تو جائے کہاں؟ وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اتنے میں اس کی نظر قیصر چاچی پر پڑی تو گلابو نے پوچھا، چاچی گٹھڑی اُٹھا کر کہاں بھاگ رہی ہو، چاروں طرف گولے ہی گولے برس رہے ہیں،، ارے بیٹی! جان بچائے تو اور کہاں، آج تو انہوں نے حد ہی کر دی، دس مکانوں کو نقصان پہنچا ہے اور پانچ موتیں بھی ہو گئی ہیں جن میں دولت رام اور کرتار سنگھ کی بیوی ستبیر بھی شامل ہے وہ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ گولہ باری رُکے تو سسکار کریں، بس جان بچ جائے مکان تو پھر بن جائیں گے، چل توُ بھی میرے ساتھ!
لیکن چاچی کہاں؟ گلابو نے اپنے تینوں بچوں کو اس طرح بانہوں میں سمیٹتے ہوئے کہا جیسے مرغی پرُو ں کے نیچے چُوزوں کو چھُپا لیتی ہے،، ارے زمیندار کے گھر کے بغیر یہاں کونسی جگہ محفوظ ہے ؟وہیں جاؤں گی، میری مان تُو بھی چل میرے ساتھ، چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں پھر تی رہے گی ماری ماری اسکول اور اسپتال تو پہلے ہی بھر چُکے ہیں، گلابو سوچ میں پڑ گئی تو قیصر چاچی نے کہا،، اری چل سوچ کیا رہی ہے، زمیندار صاحب بہت نیک اور ہمدرد انسان ہیں ،کہتے ہوئے اس نے گلابو کے چھوٹے بچے کو گود میں اُٹھالیا اور پھر گلابو کے قدم بے اختیار چاچی کے پیچھے پیچھے اُٹھ گئے،، یہ پہلا موقعہ تھا جب وہ پناہ لینے کے لئے زمیندار کے ہاں جارہی تھی کیونکہ اُس کا اپنابنایا ہوا مورچہ بھی گزشتہ دنوں گولے کا نشانہ بن گیا تھا، شیلنگ کی آواز بدستور فضاؤں میں گونج رہی تھی یوں لگ رہا تھا کہ آج رات کو ہی جنگ شروع ہو جائے گی، زمیندار کے گھر پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی _گلابو نے دیکھا پناہ گاہ میں صرف عورتیں اور بچے تھے، مرد تو گھر کی رکھوالی پر مامور تھے، کھانا کھانے کے بعد تمام عورتیں اور بچے کئی دنوں کے بعد سکون کی نیند سوگئے ، زمیندار کا اپنی بیوی کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا اسی سلسلے میں وہ عدالت میں پیشی کے لئے حاضر ہونے شہر گیا ہوا تھا اور پھر شہر سے دیر سے لوٹا تھا اپنے ایک وفادار ملازم کے ساتھ پناہ گزینوں کی خبر گیری کے لئے ہال میں پہنچ گیا،، ہال میں گُھپ اندھیرا تھا، گولہ باری کے دوران اکثر یہاں کی بجلی لائن کاٹ دی جاتی تھی، اُس نے ساتھ لائی ہوئی ٹارچ اُن کے چہروں پر ڈالی تو کئیوں نے تیز روشنی پڑنے کی وجہ سے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور کچھ نے کروٹ بدل لی، اچانک اُس کی نظر گلابو پر پڑی جو شاید بچے کو دُودھ پلاتے ہوئے گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی اور اُس کی ایک چھاتی کُرتی سے باہر نکلی ہوئی تھی اُس کا جوبن اور خوبصورتی دیکھ کر شابو خان کا دل بے قابو ہو گیا اور اُس کے مُنہ سے رال ٹپکنے لگی،، اُس نے اپنے ملازم سے اس عورت کی بابت دریافت کیا تو اُس نے بتایا کہ وہ میر محمد کی بیوہ ہے تو اتنے میں زمیندار کے اندر کا وحشی جانور جاگ اُٹھا اُس نے ملازم کو اشارہ کیا تو ملازم نے اُس کا مُنہ دبوچ کر کاندھے پر اُٹھا لیاوہ نیند میں کسمسا کر رہ گئی لیکن اُس کی پکڑ بہت مضبوط تھی اور اگلے ہی لمحے وہ زمیندار کے عالیشان کمرے میں تھی ، زور زبردستی میں اُس نے مزاحمت کی لیکن زمیندار نے اُس کو بچے یاد دلائے تو اس کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے تھوڑی دیر بعد ایک معصوم ہرنی وحشی درندے کے پنجوں میں تھی، سرحد پار سے گولے برسنے تو بند ہو چُکے تھے لیکن گلابو کے جسم پر ساری رات گولے برستے رہے جس سے اُس کی روح تک زخمی ہوگئی،، بچوں کا خیال آتے وہ تڑپ اُٹھی ،صُبح ہوتے ہی وہ ٹوٹی ہوئی ٹانگوں سے اپنے بچوں کے پاس پہنچی انہیں سلامت دیکھ کر اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور سوچنے لگی نہ معلوم میری طرح کتنی ہی گلابو زمیندار کی ہوس کا شکار ہوئی ہونگی ، پھر کتنی مرتبہ وہ زمیندار کے بستر کی زینت بنی اُسے خود بھی یاد نہیں گلابو یادوں کی تلخ گہری جھیل میں نہ معلوم کب تک ڈوبی رہتی اگر سائرن کی آواز اُس کی کانوں سے نہ ٹکراتی،، اُس نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو لوگ بغل میں پوٹلیاں دبائے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے اور دُور سرحد پر دونوں ملکوں کے سفید جھنڈے لہرا کر سیز فائر کا اعلان کر رہے تھے،،،،،،، ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں