62

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکان آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

ماں لفظ سنتے ہی دنیا بھر کی محبت، ہمدردی، اخوت مٹھاس اور چاشنی سے دل بھر آتا ہے دنیا کی محبت، قربانی، ایثار اور الفت ماں کے آگے یہچ ہے ماں ایسی ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے ماں اپنی اچھی اور نیک تربیت سے ایک نئی صدی کا آغاز کر سکتی ہے قوموں کے بننے اور بگڑنے کا دارومدار ماؤں کی تربیت پر ہی منحصر ہوتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ ماؤں کی تربیت سے دنیا میں بڑے عالم، عابد، شاعر، مفکر، ادیب اور قلمکار پیدا ہوئے ہیں اللہ کے بعد ماں ہی ایسی ہستی جو اپنے بچے کے دل کا حال سمجھ سکتی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ماں نے اپنے بچے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے کبھی گریز نہیں کیا ماں محبت اور ایثار کا ایسا سر چشمہ ہے جہاں سے محبت، ایثار اور ہمدردی کے لاتعداد چشمے پھوٹتے ہیں ماں باپ کی اہمیت اور عظمت کو قرآن کریم نے واضح طور پر بیان کیا ہے اللہ رب العزت نے والدین کا ذکر اپنی ذکر کے ساتھ فرمایا
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِی اِسْرَائِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ وَبِاالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً۔
’’اور یاد کرو جب لیا تھا ہم نے پختہ وعدہ بنی اسرائیل سے (اس بات کا کہ) نہ عبادت کرنا بجز اللہ کے اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔‘‘(البقرہ83)۔
دوسری جگہ ارشادہے:
وَعْبُدُواللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْ بِہٖ شَیْئاً وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً ۔
’’اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کونہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔ ‘‘(النساء36)۔
قرآن مجید میں اللہ پاک نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تمہارے ماں باپ میں سے کسی ایک کو تم پڑھاپے میں پاؤ تو انہیں اُف تک مت کہو اس بات سے بھی ماں باپ کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت انسان کو جنت تک لے جا سکتی ہے وہاں والدین کی نافرمانی جہنم کا ذریعہ بن سکتی ہے ماں باپ کی عظمت اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی شان کے ساتھ والدین کی شان کو بیان کیا ہے دنیا میں وہی لوگ کامیاب اور کامران ہوتے ہیں جو ماں باپ کی خدمت اور عزت و احترام کرتے ہیں اور جو لوگ ماں باپ کی قدرو منزلت نہیں سمجھتے ہیں وہ دنیا میں بھی رسوا ہوتے اور آخرت میں بھی اللہ رب العزت نے جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا ہے ماں ایک ایسی ہستی جس کی دعا بچوں کے حق میں رد نہیں ہوتی اسلامی تاریخ کا ایک مشہور واقع ہے کہ
حضرت موسٰی علیہ السلام کو الله تعالیٰ نے فرمایا کے پہاڑ پر احتیاط سے چڑھا کرو حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا میں اکثر کوہ طور پر چڑھتا ہوں، اللہ تعالی نے کہا کہ پہلے تمہاری ماں زندہ تھی جو تمہارے لئے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے رکھتی تھی جو اب نہیں ہے اس واقعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ماں کہ دعاؤں میں کتنا اثر ہوتا ہے لہزا ہمیں بھی چاہیے کہ جب بھی گھر سے کسی کام کے لیے نکلیں ماں باپ سے اجازت لے کر ہی نکلیں تاکہ ماں کے دل سے ہمارے لیے دعا نکلے بقول شاعر
ابھی ماں میری زندہ ہے مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا
میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور  کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :یا رسول اللہ !سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی) کروں؟ فرمایا: تیری ماں ۔عرض کیا پھر؟فرمایا :تیری ماں۔عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ(امام بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے)
ایک اور حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں
ایک صحابی نے نبی کریم  سے پوچھا:کیا میں بھی جہاد میں شریک ہوجاؤں ؟ نبی کریم  نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں نبی کریم نے فرمایا کہ پھر انہی میں جہاد کرو(یعنی ان کی خدمت کرو)(صحیح بخاری)۔. افسوس کہ بات ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کو mothers day پر ماں یاد آتی ہے جب کہ ماں کی محبت کسی ایک دن کی محتاج نہیں ہے جس ماں کا ذکر اللہ نے اپنی ذکر کے ساتھ بیان کیا ہے کیا اس ماں کی محبت کا کوئی ایک دن مخصوص کیا جا سکتا ہے جس دین نے ماں باپ کو شفقت کی نظر سے دیکھنے کو حج مبرور کے برابر قرار دیا ہے کیا اس ماں کے لیے کو ایک دن مخصوص کیا جاسکتا ہے کوئی اگر عمر بھر اپنی ماں کی خدمت کرتا رہے تب بھی ماں کی دی ہوئی قربانی کا عشر اشیر بھی ادا نہیں ہو سکتا ہے ماں وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کی ذرا بھر تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتی خود اگر بھوک سے مر بھی جاے لیکن بچے کی بھوک برداشت نہیں کر سکتی اتنا ہی نہیں ماں ایک ایسا سمندر ہے جو اپنے بچوں کے ہزاروں راز اپنے سینے میں دفن کرتی ہے ماں کا غصہ وقتی ہوتا ہے یہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا ہے ماں بہت جلد پگل جاتی ہے منور رانا
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
لیکن آجکل کے معاشرے میں ماں باپ کی وہ عزت نہیں کی جاتی ہے جو کرنی چاہئے آجکل کے بھائیوں میں جب بٹوارہ ہوتا ہے تو دنیاوی دولت کے لیے لڑ پڑتے ہیں لیکن جب ماں باپ کی باری آتی ہے تو آجکل کے بیٹے خاموش ہو جاتے ہیں کوئ ایک ماں باپ کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں دراصل اس لافانی اور نایاب دولت کی قدر ہی نہیں ہے اتنا ہی نہیں آجکل کے بچے والدین خاص کے اپنی ماؤں کی فرمانبرداری سے کتراتے ہیں یہاں تک کہ اپنی ماؤں کو بات تک نہیں کرنے دیتے ہیں آجکل کے بچے جہاں گھروں کے باہر اور لوگوں سے بہت ہی ادب سے پیش آتے ہیں وہیں اپنے والدین کی ناقدری کرتے ہیں لیکن جو بچے اپنے والدین کی قدر اور فرمانبرداری نہیں کریں گے معاشرے کو ان سے کوئی امید نہیں رکھنی ہمیں کسی بھی قیمت پر اپنے ماں باپ کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے خاص کر بڑھاپے میں جب قدم قدم پر انہیں ہماری ضرورت ہوتی ہے جب یہ جسمانی طور کمزور ہو چکے ہوتے ہیں ایسے وقت میں ان سے آنکھیں پھیر لینا ہمارے لیے شرم اور بے حد افسوس کی بات ہے ہمیں ماں باپ کی خدمت کرنے کو اپنے لیے سعادت مندی کا کا سمجھ لینا چاہیے نہ کہ بوجھ بقول منور رانا
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
آئے دن مختلف ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف جگہوں پر ماں باپ کی توہین اور بے قدری کئ جاتی ہے اور ہزاروں ایسے واقعات ہونگے جو منظر عام پر ہی نہیں آتے ہونگے آجکل کے نوجوان ایک بار بھی یہ نہیں سوچتے ہیں کہ والدین کی نافرمانی انسان کو جہنم تک لے جا سکتی ہے چاہے پھر انسان نے کتنی ہی عبادات کیوں نہ کیں ہوں. ماں کی عظمت کو دنیا کے بڑے سے بڑے قلمکاروں، شاعروں اور ادیبوں بے بیان کیا ہے لیکن اس موضوع پر جتنا بھی لکھا اور کہا جائے کم ہو گا کیونکہ اس موضوع کی وسعت اور گہرائی سمندروں سے بھی زیادہ ہے ماں کا حق ادا نہیں ہو سکتا چاہے کوئی کتنی بھی خدمت کرے لہزا ہمیں اپنے ماں باپ کی خدمت دل و جان سے کرنی چاہئے شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے اتنا ہی نہیں حکیم لقمان کا فرمان ہے کہ اگر مجھے ماں سے جدا کر دیا جائے تو میں پاگل ہو جاؤں گا
ایسا نہیں ہے کہ آجکل کے بچے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتے ہیں الحمدللہ ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے والدین خاص کر اپنی ماں کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں اور اپنے آپ پر جنت واجب کرتے ہیں ایسے نوجوان ہمارے معاشرے کا اصل سرمایہ ہیں اور ایسے نوجوان پوری قوم کے لیے مشعل راہ ہیں لیکن ہم میں سے اگر کسی نے بھی اپنے ماں باپ کا دل دکھایا ہو تو ہمیں فوراً اللہ کے حضور سر بہ سجود ہو کر اللہ اور ماں باپ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر لینی چاہیے اور بناہ مزید دیر کیے اپنے ماں باپ کی خدمت میں لگ جانا چاہیے تاکہ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کو بخش دے ہمارے درجات بلند فرمائے اور ہماری عمر، علم، اور عقل میں برکت عطا فرمائے بقولِ منور رانا
مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی
ماں کی آنکھیں چوم لیجیے روشنی بڑھ جائے گی
سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں