ہدایت 90

ہدایت

تحریر: پرویز مانوس
اوپریشن تھیٹر کے دروازے پر لگی ہوئی سُرخ رنگ کی بتی کافی دیر سے روشن تھی ، سلیم بہت ہی بے قراری کے عالم میں اسپتال کی لابی میں ادھِر سے اُدھر اور اُدھر سے ادِھر ٹہل رہا تھا۔۔اس کے دل میں کئی طرح کے وسوسے گھر کر رہے تھے ۔۔ ذہن میں بُرا خیال آتے ہی وہ اپنے سر کو جھٹک کر کہتا ،، نہیں نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔
دوسری طرف اس کی بیوی فریدہ اسپتال کی لابی میں ایک چادر بچھا کر بارگاہِ الہیٰ میں سر بہ سجود تھی ۔۔۔ سلیم کی زندگی کی کہانی بڑی عجیب و غریب تھی اور اس کا مزاج بھی ۔۔۔،،
مسجد کے دروازے سے تو وہ کبھی گُزرا ہی نہ تھی۔۔۔۔
نماز اور روزے کی تو بات ہی نہیں۔۔۔ ،، بچپن میں مولوی صاحب سے پڑھے ہوئے سبق کو اُس نے سرِے سے ہی فراموش کر دیا تھا۔۔۔ مسلمان والدین کے گھر میں جنم لینے اور چھ کلمے یاد کرنے کے بعد وہ مسلمان تھا _ اُس کے لئے اتناہی کافی تھا۔۔۔،،
گریجویشن مکمل کرنے کی بعد اُس نے دیکھا کہ کئی نوجوان پڑھ لکھ کر بے روزگار ی کی وباء کا شکار ہیں لہذٰا ادھِر اُدھر بھٹک کر وقت ضائع کرنے کے بجائے اُس نے پولیس میں بطورِ سپاہی بھرتی ہونا مناسب سمجھا ۔۔۔۔۔
اُس کے اس فیصلے میں قسمت نے بھی اُس کا بھر پور ساتھ دیا اور اسی دوران راکھ میں دبی ہوئی چنگاری شہر میں پھر سے بھڑک اُٹھی تو اُس نے بھی چالاکی کو بروئے کار لاتے ہوئے سیکورٹی کے خصوصی دستے میں شامل ہوکر نا مساعد حالات سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کافی سارے فرضی اینکونٹروں میں شرکت کی اور پھر رفتہ رفتہ اُس کو اینکونٹر اسپیشلسٹ کا خطاب حاصل ہوگیا۔۔ اس دوران اُس کو کئی اعزازات سے بھی نوازہ گیا جو بعد میں اُس کی ترقی کی بُنیاد بن گئے ۔۔۔،،،،
بس اسی طرح بے گناہوں کی لاشوں پر پاؤں رکھتے رکھتے وہ سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچ گیا ۔۔۔ اب اُسے وردی اور کاندھوں پر سجے ستاروں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔،، سرکاری گاڑی، چار پانچ محافظ ،اُس پر آقاؤں کا آشرواد ۔۔۔،، اب اُس کا ایک ہی مقصد تھا جس طریقے سے بھی ہو سکے دولت حاصل کی جائے۔۔۔۔۔
سلیم کی ذاتی زندگی میں بیوی کے علاوہ پھول سے دو خوبصورت بچے ، دس سال کا بیٹا عدنان اور پیاری سی سات سال کی مہرین شامل تھیں _
سلیم کے برعکس اس کی بیوی فریدہ ایک نیک سیرت اور دیندار خاتون تھی۔۔۔ شادی کے دس سال بعد بھی اُن دونوں کے مزاج اور اصولوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔۔
جس طرح ندی کے دو کنارے ۔۔۔،، اس کے باوجود فریدہ دُنیاداری کے واسطے اس رشتہ کو نبھا رہی تھی۔۔۔،،، رُخصتی کے وقت ماں کی کہی ہوئی وہ بات کہ بیٹی کا جنازہ شوہر کے گھر سے ہی نکلنا چاہیے ، آج بھی اُس نے گانٹھ باند کر رکھی ہوئی تھی۔۔۔،،
ایک روز جب سلیم گھر کے اندر داخل ہوا تو اُس کو دیکھتے ہی اُس کا بیٹا عدنان زور سے چِلایا ، ڈیڈی۔۔۔۔۔!
او میرا بیٹا۔۔۔۔! دیکھو میں تمہارے واسطے کیا کُچھ لایا ہوں ،،
سلیم اُس کو اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے بولا،،
عدنان سامان سے بھرے ہوئے بڑے بڑے لفافوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بولا،، ڈیڈی او ڈیڈی۔۔۔! آپ کتنے اچھے ہو ۔۔۔،
روز میرے لئے نئی نئی ویڈیو گیمز اور کھلونے لے کر آتے ہو ۔۔۔پھر سلیم کے گال پر اپنے پیار کی مہر ثبت کرنے کے بعد وہ لفافے اُٹھا کر ڈرائینگ روم کی طرف چل دیا تو سلیم کو اپنے گھر میں خاموشی کا احساس ہوا _ اُسے کسی کی کمی محسوس ہورہی تھی ۔۔ اُس کی نظریں ادھِر اُدھر کسی کو تلاش کرنے لگیں ۔۔۔ دفعتاً اُس کی نظر بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنی بیٹی مہرین پر پڑی تو وہ تڑپ اُٹھا۔۔ ،،
اوہو مہرین! میری بچیّ۔۔۔ آج کیا اپنے ڈیڈی سے ناراض ہے ؟ نہ دروازہ کھولا۔۔۔۔ نہ سلام دُعا۔۔۔۔ نہ چُمی شُمی۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟
اپنے ڈیڈی کی جان اُداس کیوں ہے ؟
مہرین کی طبعیت آج پھر ٹھیک نہیں ہے! اُسے آرام کرنے دیجئے ۔۔۔۔،،،
فریدہ جو مغرب کی نماز ادا کر رہی تھی۔۔۔۔ سلام پھرنے کے بعد سلیم سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔،،
لگتا ہے دوائی سے اسے کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔۔۔۔دوسرے ڈاکٹر کو دکھانا تھی ،، سلیم اپنی وردی کے بٹن کھولتے ہوئے بولا۔۔۔۔،،
ڈاکٹر صاحب نےتو کل کی اپوینٹمنٹ دی ہے لیکن آپ کے پاس ہمارے واسطے فرصت ہی کہاں نے،،کل بھی اس بچاری کو اسکول میں سانس کی تکلیف ہوئی ہے۔۔۔۔ پرنسپل صاحب نے اپنے آفس میں آرام کرنے کے لئے کہا۔۔۔،،
انہوں نے تو اُس کی ڈائری پر نوٹ بھی لکھا تھا ۔۔۔۔لیکن آپ کو دیکھنے کی فُرصت ہو تب نا ،، فریدہ جاءنماز تہہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔،،
یہ دیکھو ڈیڈی نے اپنی پری کے لئے کیا لایا ہے۔۔۔۔،،
سلیم مہرین کو کچھ چیزیں دکھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔ ،،
مگر مہرین ان سب چیزوں سے بے نیاز اپنے بستر پر بے سُدھ پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ پھر سلیم نے اپنے بٹوے سے پانچ پانچ سو کے کچھ نوٹ نکال کر اُس کو دکھاتے ہوئے کہا “لو۔۔۔۔ سارے لے لو ۔۔۔۔ جو کچھ تمہیں پسند ہو ممیّ کے ساتھ شاپنگ مال سے خود لے آنا۔۔۔۔
ٹھیک ہے ؟ چلو اب ہنس دو شاباش۔۔۔۔!
رہنےدو۔۔۔۔ رہنےدو” اس معصوم کی عادتیں مت بگاڑو۔۔۔۔
آپ کے انہی نوٹوں نے میری پھول جیسی بچیّ کو اس حالت تک پہنچایا۔۔۔۔ فریدہ جل بُھن کر بولی۔۔۔۔،،
“یہ سنُنا تھا کہ سلیم بھڑک اُٹھا۔۔۔۔،،
کیا ہے ان نوٹوں میں ؟ کیا ہے ؟
کیا ان میں ضرب نہیں ہے ؟ یونہی فِضول باتیں کرتی رہتی ہو “۔
میں نے کب کہا ان میں ضرب نہیں ہے ؟ مگر حلال کی کمائی تو نہیں ہے ۔۔۔۔،،،
آخر کیا کریں گے آپ اس دولت کا ؟ جس نے آپ کا سب کچھ چھین لیا ہے۔۔۔۔سکون ، آرام،دین ،رشتے!
میں یہ سارا کچھ کس کے لئے کر رہا ہوں ؟ تمہارے لئے۔۔۔۔ بچوںّ کے لئے!
مگر میں نے تو کبھی آپ سے نہیں کہا کہ ہمارے لئے حرام طریقے سے دولت کما کر لاؤ!
یہ مت بھولو کہ رب کے آگے آپ کو اپنے اعمال کا حساب خود دینا ہے ۔۔۔۔،، ہم نے نہیں!
میں تو صرف اتنا جانتا ہو کہ پیسہ تو پیسہ ہوتا ہے۔۔۔۔ کیا حرام۔۔۔۔کیا حلال۔۔۔۔
پھر آج کے دور میں پیسہ ہی سب کچھ ہے۔۔۔۔ یار، دوست، رشتے ،ناطے سب کا معیار پیسہ ہے پیسہ۔۔۔۔سمجھی۔۔۔۔ ،،
تجھے کچھ پتہ بھی ہے کہ کتنی ذمہ داریاں ہیں ہمارے اوپر۔۔۔۔
بچوںّ کی پڑھائی۔۔۔۔ ان کا فیوچر۔۔۔۔ لاکھوں میں ڈونیشن ہے اسکولوں کا۔۔۔۔،،
آج سے ہی دولت اکٹھی کریں گے _،، تب جا کر کل بیٹی کو وقت کے مطابق جہیز دے کر گھر سے رخُصت کریں گے _،،، باتیں کرتی ہے۔۔۔۔،،
یہ بہانے بناکر آپ مجھے اپنے غلط اصولوں پر قائل نہیں کر سکتے۔۔۔۔،،،
رہی بات بیٹی کی تو جس خدا نے اس کو اس دُنیا میں بھیجا ہے اُس نے ضرور اس کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہونگے ۔۔۔۔ کہہ کر فریدہ رسوئی میں چلی گئ۔۔۔۔ ،،
یہ تو سلیم کے گھر کا روز کا معمول تھا ۔۔۔۔سلیم فریدہ کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دُنیا وی فلسفے سمجھانے کی کوشش کرتا تو فریدہ اُس کو آخرت یاد دلاتی کہ وہاں کیا مُنہ دکھاوگے۔۔۔۔،،
“کئی بار تو نوبت طلاق تک آ پہنچی لیکن پھر سلیم سوچتا وہ لوگوں کو کیا وجہ بتائے گا۔ ”
کئی ڈاکٹر وں سے علاج کرانے کے باوجود جب مہرین کی بیماری کی تشخیص نہ ہو سکی تو ایک دن سلیم فُرصت نکال کر مہرین کو شہر کے بڑے انسٹی چیوٹ لے گیا ۔۔۔۔،،
شعبہ امراضِ قلب میں اُس کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مہرین کے کچھ ٹیسٹ کرانے کے لئے کہا جس میں سے کچھ ٹیسٹ شہر سے باہر بھیجے گئے۔۔۔۔
تقریباً ایک مہینے کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے مہرین کے ٹیسٹوں کی رپوٹیں دیکھیں تو بڑے دُکھ سے اس بات کا انکشاف کیا کہ مہرین کے دل میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے جس کی وجہ سے تھوڑا پیدل چلنے کے بعد مہرین کافی تھکاوٹ محسوس کرتی ہے اور پھر اُس کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔
“یہ سُن کر فریدہ کا سر چکرانے لگا۔۔۔۔ اُسے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
فریدہ کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے اُسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ،،، گھبرانے کی ضرورت نہیں!
یہ بچیّ ٹھیک ہو سکتی ہے مگر اس کی اوپن ہارٹ سرجری کرانی پڑے گی۔۔۔۔جس کے لئے آپ کو چندی گڑھ کے پرائیوٹ اسپتال میں ایک ماہر ڈاکٹر کے ساتھ مشورہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ایسے کافی سارے کامیاب اوپرشن کئے ہیں _ جتنی جلدی ہو سکے آپ ان سے رابطہ کیجئے۔۔۔۔
مہرین کی اس بیماری کے بارے میں سُن کر سلیم کافی پریشان ہوگیا _ کیونکہ دو اولاد کے فوت ہونے کے بعد اُس نے پیروں ،فقیروں کے ڈیروں اور درگاہوں پر جا جا کر خدا سے مانگ مانگ کر مہرین حاصل کی تھی۔۔۔۔وہ تو سلیم کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔۔۔۔
وہ عجیب سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں وہ اُس کے لئے جہیز جٹانے کرنے میں لگا تھا اور کہااب یہ بیماری ۔۔۔۔،،،، پھر اُس نے اپنے تمام بینک کھاتے کنھگال ڈالے اور مہرین کو لے کر اُس پرائیویٹ اسپتال میں چلا آیا،جہاں آج اُس کی اوپن ہارٹ سرجری چل رہی تھی ۔۔۔۔،،،
مہرین کو اوپریشن تھیٹر میں داخل ہوئے پورے تین گھنٹے ہو چُکے تھے ،ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سلیم کا خون سوکھ رہا تھا ۔۔۔۔
” بینچ پر بیٹھ کر اُسے ڈاکٹر صاحب کے وہ الفاظ یاد پڑ رہے تھے کہ” سلیم صاحب کنزنٹ (consent from )پر دستخط کرنے سے پہلے ایک بار پھر سوچ لیجئے یہ کوئی معمولی اوپریشن نہیں ،ایسے کیسوں میں ففٹی ففٹی چانسز ہوتے ہیں۔۔۔۔،،
پھر سلیم کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے چہرے ایک ایک کر کے رقص کرنے لگے جن کو اُس نے اپنی خود غرضی ،لالچ اور خوہشات کے لئے فرضی جھڑپوں کی بھینٹ چڑھا دیا تھا _ اُن ماؤں کے بین اُس کے کانوں میں گونجنے لگے جن کی اُمیدوں کے چراغ اُس نے اپنی زہریلی پھونکوں سے بُجھا ڈالے تھے ۔۔۔۔ایک ماں کے الفاظ یاد کر کے وہ تھرا گیا ،،جس کی زبان سے بیٹے کا پوسٹ مارٹم کراتے وقت یہ بد دُعا نکلی تھی کہ “اُس کی اولاد کی بھی اسی طرح چیر پھاڑ ہو جس نے میرے معصوم اور بے گناہ بچےّ کی یہ حالت کی۔۔۔۔ اسے ان معصوم بچوںّ کے اداس چہرے یاد آنے لگے جن کے ناموں کے ساتھ اُس نے بے اختیار یتیم جوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ وہ اپنے ساتھ بڑبڑانے لگا۔۔۔۔ اُف میرے خُدایا! یہ آوازیں میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتیں ؟ یا اللہ میرے بُرے کرموں کی سزا میری معصوم بچیّ کو مت دے۔۔۔۔! اُس پر رحم کر۔۔۔۔ رحم کر۔۔۔۔،،یہ کہتے ہوئے اُس نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کیا اور پھر وہ بینچ سے اُٹھ کر آگے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔،،
کسی نزدیک کی مسجد میں ہونے والی اذان سے ساری فضا گونج اُٹھی تواسی کے ساتھ اوپریشن تھیٹر کا دروازہ بھی کُھلا، یہ دیکھتے ہی فریدہ تھیٹر کی طرف دوڑ پڑی اور اندر سے نکلتے ہوئے اسٹیچر سے لپٹ گئی۔۔۔۔،،،اُس کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ،، ڈاکٹر صاحب میری بچیّ کیسی ہے ؟ she is alright now…. مبارک ہو!
آپریشن کامیاب رہا ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے اپنے ہاتھوں سے گلاوز اُتارتے ہوئے کہا۔۔۔۔،،تو فریدہ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف آُٹھاتے ہوئے کہا “” میرے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ تو نے اس گنہگار بندی کی لاج رکھ کر میری معصوم بچیّ کو چند سانسیں اور بخش دیں ۔۔۔۔،،
تھیٹر اسسٹنٹ اسٹیچر کو وارڈ کی طرف دھکیلنے لگے تو فریدہ کی نظریں اپنے شوہر کو تلاش کرنے لگیں جو اس نازک موقعے پر بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔۔۔۔ اسے اس بات پر سخت غُصہ آیا، دفعتاً اُس کی نظریں وہاں پر جا کر جم گئیں جہاں ایک مختصر سی صف میں شامل ہوکر سلیم بارگاہِ ایزدی میں سر بہ سجوُد تھا”۔
یہ منظر دیکھ کر وہ بے حد جذباتی ہوگئ اور اُس کی آنکھوں سے نکلنے والے گرم گرم اشکوں کے دو قطرے اُس کے دوپٹے میں جذب ہوگئے ۔۔۔۔،،،،
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں