جو آگ اگلتے ہیں انہیں سزا۔۔۔۔؟ 88

جو آگ اگلتے ہیں انہیں سزا۔۔۔۔؟

تحریر: سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
داناؤں کا قول ہے کہ اتفاق میں طاقت ہے جس گھر میں اتحاد و اتفاق ہوتا ہے وہ گھر ترقی کر کے آسماں کی بلندیوں کو چھو پاتا ہے اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا نہ ہی کوئی اس سے الجھنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح سے جس ملک میں اتحاد و اتفاق، اور بھائی چارہ ہوتا ہے اس ملک میں امن و سکون ہوتا ہے اور وہ ملک ترقی کے نئے نئے منازل طے کرتا ہے پھر حالات کیسے بھی ہوں ان سے مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ امن و سکون ہی اصل دولت اور سرمایہ ہوتا ہے لیکن جب کسی ملک میں نا اتفاقی ہو جاتی ہے امن و امان کی صورتحال بگڑ جاتی ہے تو ملک کو بکھرنے میں دیر نہیں لگتی. بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے اور اس ملک کی ایک بہت بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس ملک میں مختلف مذاہب کے لوگ رہائش پذیر ہیں جس بنا پر ملک کو سیکیولر ملک کا خطاب حاصل ہے ملک میں مختلف مذاہب، زبانوں، رنگوں، نسلوں کے لوگ رہتے ہیں اور سب لوگ مل جل کر رہتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ اس امن و سکون اور مذہبی بھائی چارے کو نقصان پہنچانے کے طاق میں رہتے ہیں اور ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی امن و سکون بھی بگڑ جاتا ہے ملک میں ماضی قریب میں توہین رسالت کے جو واقعات رونما ہوئے ہیں انہیں بدقسمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں مسلمان اپنی جان دینا گوارہ کر سکتا ہے لیکن اپنے پیارے نبی ؐ کی شان میں گستاخی ہرگز ہرگز برداشت نہیں کر سکتا چاہے اس کے لیے مسلمان کو اپنا سارا مال و جان کیوں نہ داو پر لگانا پڑے ۔ایسے گناونے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے چاہیے دنیا کے کسی بھی حصے میں اس طرح کا گناونی جرم کیوں نہ انجام دیا جائے ۔
حال ہی میں اسی طرح کا واقعہ فرانس میں رونما ہوا ہے جس سے پھر ایک بار دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور اس واقعے کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج درج کیا گیا اس اخبار کے ذریعے میں بحیثیت مسلمان اس واقعے کی سخت مذمت کرتاہوں اور ساتھ ہی ساتھ اس واقعے کے خلاف اپنا احتجاج بھی درج کرتا ہوں۔ کچھ مدت پہلے جموں و کشمیر سے بھی ایسا واقعہ رونما ہوا جموں کشمیر سے ایسے واقعے کا رونما ہونا اور بھی افسوس ناک ہے کیونکہ یہ خطہ مذہبی بھائی چارے اور رواداری کے لیے صدیوں سے اپنی مثال آپ رہا ہے جہاں مختلف مذہبوں، زبانوں، اور رنگوں نسلوں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور صدیوں سے اس روایت کو سنبھالے ہوئے آئے ہیں پتا نہیں کچھ لوگوں کو یہ بھائی چارہ راس کیوں نہیں آتا ہے اور وہ ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جس سے اس بھائی چارے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ارباب اقتدار کو چاہیے کہ ایسے امن و سکون بگاڑنے والے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے اور قانون اگر وقت پر اپنی موجودگی کا احساس دلائے تو کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کسی کو بھی کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ملک میں ایسے درجنوں متنازعہ بیانات دئیے جا چکے ہیں جن سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے لیکن کسی کو بھی کسی دوسرے مذہب کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ اس امر سے ملکی بھائی چارے اور سالمیت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔ ایسے واقعات کا رونما ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے تاہم تکلیف تب ہوتی ہے جب ایسے امن دشمن لوگوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور سزا کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ایسا کرنا کبھی بھی ملکی بھائی چارے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے جب کہ تمام مذاہب اور ان کے ماننے والوں کی حفاظت ارباب اقتدار کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے ۔لیکن جب ارباب اقتدار کا جھکاو کسی خاص مذہب کی جانب ہو تو حالات کو قابو کرنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جہاں حکومت ملک کو بیرونی خطرات سے بچانے میں جی جان لگاتی ہے وہاں ان دیمکوں سے بھی ملک کو بچانا ہے ورنہ یہ دیمک ایک دن اس ملک کو کھا جائیں گے اور ڈکار بھی نہیں لیں گے آخر ایسی گناونی حرکت کرنے والے لوگ نااہل قرار کیوں نہیں دئیےجاتے ہیں؟ اور ان کے خلاف قراری کاروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو تاکہ باقی لوگوں کے لیے نصیحت بن جائے اور کوئی بھی شخص ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا تاکہ ملک کی سالمیت برقرار رہے ۔کیونکہ ملک میں سبھی مذاہب کے لوگ برابر برابر عزت و احترام کے قابل ہیں لیکن ان شرارتی لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا انہیں دوسروں کو تکلیف دینے سے ہی راحت ملتی ہے ۔
اس امر میں ملک کی چند میڈیا چلنیں بھی اپنا رول نبھاتی ہیں صحافت کا کام عوام تک سچی خبر پہنچانا، ملک کی خدمت کرنا اور کسی بھی ایسی بات سے پرہیز کرنا جس سے امن و سلامتی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کی چند میڈیا چنلیں حقیقت سے دور بھاگ رہی ہیں اور زہر اگلنے کا کام کر رہی ہیں۔ روز ایسے پروگرام چلائے جاتے ہیں جس سے کسی نہ کسی طبقے کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں روز شام کو ٹی وی پر چِلایا جاتا ہے جیسے خبر نہیں خدا نخواستہ کوئی جنگ چل رہی ہو جہاں بیروزگاری، رشوت خوری، غربت، جہیز اور تعلیم کے موضوع پر مباحثہ ہونا چاہیے تھا وہ غیر ضروری باتوں کو اہمیت دے کر مباحثے کا حصہ بنایا جاتا ہے اپنا ٹی آر پی بڑھانے کے لئے ایسی چینلوں کے چلانے والے کسی بھی حد تک جاتے ہیں میں ایسی نیوز چینلوں کا نام لینا ضروری نہیں سمجھتا ہوں کیونکہ اب ان نیوز چینلوں کی نفرت سی ہو گئی ہے آخر اشتعال انگیز خبریں پھیلانے والوں کی نکیل کیوں نہیں کسی جاتی ہے؟ ارباب اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو ایسی میڈیا چینلوں پر تالے لگانے چاہیے جس سے ملک کے بھائی چارے کو کوئی بھی خطرہ لاحق ہو میڈیا چاہے تو ملک میں امن و سکون قائم کرنے میں مدد کر سکتا ہے لیکن زمینی سطح پر بالکل اس کے بر عکس ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اسی طرح کے زہریلے بیانات فیس بک اور دیگر ذرایع ابلاغ کا سہارا لے کر پھیلائے جاتے ہیں اوربنا پوچھ گچھ کیے یہ زہریلی خبریں مشرق و مغرب پھیلائی جاتی ہیں ذرائع ابلاغ کے شاید اسی فرسودہ رویے کو دیکھ ڈاکٹر راحت اندوری نے کہا تھا کہ
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے
سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
پگڑیاں اچھالنے اور امن و سکون بگاڑنے والے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے اصل مقصد کی آبیاری کرنی چاہیے اور غیر ضروری مباحثوں سے دوری اختیار کر لینی چاہیے ۔
ایسی کوئی بھی خبر پھیلانے سے سختی سے پرہیز کرنا چاہیے جو محض افواہ پر ٹکی ہو کیوں کہ اس عمل سے حالات کے بگڑنے کا خطرہ رہتا ہے بقولِ منور رانا ؎
دھواں اگلتی ہوئی گاڑیاں پکڑتے ہیں
جو آگ اگلتے ہیں انہیں سزا نہیں ہوتی
�����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں