100

اولیاؤں کی سر زمین اور شراب کا کاروبار

سبزار احمد بٹ۔اویل نورآباد

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ

وادئ کشمیر کو اولیائے کرام سر زمین کہا جاتا ہے جہاں پر بڑے بڑے ریشیوں، ولیوں اور سنتوں نے جنم دیا ہے اس سر زمین سے برائی کو ختم کرنے کے لیے بے شمار قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا گیا اور ان اولیائے کرام نے اس کشمیر میں اعلیٰ اقدار اور انسانی قدروں کو بازیافت کرنے کے لیے کوئی قصر باقی نہیں چھوڑی نہ جانے ارباب اقتدار کیوں ان سب برائیوں کو پھر سے وارد کشمیر کرنا چاہتے ہیں خاص کر شراب جیسی بری اور ناکارہ شئےکو شراب کو دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے حرام قرار دیا ہے مذہبِ اسلام نے تو ہر نشہ دلانے والی شئے کو حرام قرار دیا ہے اسلام اپنے ماننے والوں کو پاک باز، راست باز، با حیا اور نیک صفات سے لبریز دیکھنا چاہتا ہے جبکہ شراب انسان کو بے حیا، بزدل بے عقل اور رزیل بنا دیتا ہے دنیا کے مختلف ممالک میں شراب پر مکمل پابندی عائد ہے شراب کو عربی میں خمر کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ڈھانپنا یعنی پردہ ڈالنا شراب عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور انسان کے حوش و حواس رخصت ہو جاتے ہیں اور انسان بالکل حواس باختہ ہو جاتا ہے ایسے میں انسان سچ اور جھوٹ، حق اور باطل یہاں تک کہ رشتوں کی پہچان کھو دیتا ہے شراب سے انسان اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے اور اللہ کے احکام کی تکمیل کے بجائے اللہ رب العزت سے روگردانی کرتا ہے اور اللہ رب العزت کا باغی بن بیٹھتا ہے اسلام نے شراب پینے اور پلانے والے کے ساتھ ساتھ شراب سے منسلک دس لوگوں پر لعنت کی ہے چاہیے وہ کسی بھی طرح سے اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہوں یا کسی بھی طرح سے اس کاروبار کے فروغ میں مددگار ثابت ہو رہے ہوں اس کا کاروبار کرنے والوں کی کمائی بھی حرام ہے شراب کی بہت کم مقدار چاہے دوا کے لیے ہی کیوں نہ استعمال ہو حرام اور قطعاً حرام ہے سائنس کی مانیں تو شراب بہت بری اور خطرناک شئےہے اس سے انسان کے گردے اور پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں اور انسان بزدل بن جاتا ہے لیکن نہ جانے ملک کے اربابِ اقتدار کو اس بری شئےسے محبت کیوں ہے حیرت کی بات ہے کہ جب پوری دنیا میں لاک ڈاون نافذالعمل تھا ملک کی تمام عبادت گاہیں، کاروباری ادارے اور ملک کے تمام تر تعلیمی ادارے کورونا کی وجہ سے بند تھے ایسے میں ملک کی مختلف ریاستوں میں شراب کی دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی گئی جو کسی بھی اعتبار سے صحیح فیصلہ نہیں تھا کیونکہ شراب کو فروغ دینا ملک کے نوجوانوں کو اندر سے کھوکھلا اور ذہنی مریض بنانے کے مترادف ہوگا کوئی انسان چاہیے کسی بھی مذہب کو ماننے والا ہو شراب سے دور رہنے میں ہی اس کی عافیت اور بھلائی ہے شراب کسی مرض کی دوا نہیں ہے بلکہ شراب کے صرف نقصانات ہی نقصانات ہیں قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں
اے ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور پانسے(ہار جیت؛کے تیر) ناپاک ہی ہیں،شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ، شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بیر اور دشمنی ڈلوادے،شراب اور جوئے میں اور تمھیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔(سورۂ مآئدہ:آیت۹۰
حدیث شریف میں فرمایا گیا ہر پینے والی چیز جو نشہ لائے وہ حرام ہے۔
ایک اور حدیث میں حضور علیہ الصلاۃوالسلام نے فرمایا کہ جو چیز زیادہ مقدار میں نشہ لائے تو اس کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے
مذکورہ آیات اور احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شراب مکمل طور پر حرام ہے اس لیے پوری دنیا خصوصاً مسلمان نوجوانوں کو شراب سے پرہیز کرنا چاہیے اور سرکار کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی باقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی شراب کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے اور ملک کو شراب جیسی بدعت سے آزاد کرنا چاہیےلیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جموں کشمیر انتظامیہ خطے میں شراب پر پابندی عائد کرنے کے بجائے شراب کی دکانیں کھولنے کے لیے اجازت نامے (لائسنز) اجرا کرنے میں لگی ہوئی ہے وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ایسا ریاست کی اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن ایسا نوجوان نسل کو داؤ پر لگا کر اور انہیں ذہنی مریض بنا کر نہیں کیا جا سکتا ہے ایسا کرنا اس مسلم اکثریت والے علاقے کے لوگوں کے لیے سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اسے مذہبی معملات میں مداخلت سے تعبیر کیا جائے گا اولیاؤں کی اس وادی کو کیوں شراب جیسی گندی چیز سے ناپاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس فیصلے پر کشمیر کے علما اور سول سوسائٹی نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر ایسا فیصلہ لیا جاتا ہے تو اس کے بیانک نتائج نکلیں گے جموں کشمیر کو جدید ہسپتالوں، تعلیم اداروں، بجلی پانی اور سڑکوں کی ضرورت ہے نہ کہ شراب خانوں کی. جموں و کشمیر کے لوگ انتظامیہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس عوام مخالف فیصلے پر نظرثانی کی جانی چاہیے اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو لوگوں کا انتظامیہ پر سے اعتبار ختم ہو جائے گا آخر کیا ضرورت ہے ایسا کرنے کی وہ بھی ایسے نازک موقع پر جب پوری دنیا کورونا سے نمٹنے میں لگی ہے
میں جموں و کشمیر کے عوام سے خاص کر نوجوانوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس چیز سے دور رہیں کیونکہ جس چیز کو ہمارے نبی کریم ﷺ نے حرام اور بیماری قرار دیا وہ کسی بھی صورت میں دوا نہیں ہو سکتی ہے لہذا ہمیں اس بیماری سے دور رہنا چاہیے تاکہ ہماری نئی پود بھی اس لعنت سے دور رہے والدین سے بھی استدعا ہے کہ اپنے بچوں کو اس دلدل سے بچائیں اور والدین ہونے کا حق ادا کریں ورہ ہم اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہو جائیں گے اور اللہ ہم سے ناراض ہو جائیں گے وہ ناراضگی پھر عزاب الٰہی کی وجہ بن جائے گی اگر کسی نوجوان سے ایسی حماقت ہوئی ہو کہ اس نے خدانخواستہ شراب پی ہو تو فوراً اللہ کے حضور معافی طلب کر لینی چاہیے اللہ بے شک رحیم اور معاف کرنے والا ہے یہ ہمارے لیے امتحان کا وقت ہے ہمیں ثابت قدم رہنا ہے اور اپنے اللہ اور اس کے رسول اکرم کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے اور اس بدعت سے دور رہنا ہو گا تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم پر ناز ہو کہ ان کے اجداد اس امتحان میں سرخرو ہو گیے ایسے موقع پر ہمیں ڈگمگانا نہیں ہے ورنہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہماری نئی پود کو بھگتنا پڑے گا بقولِ شاعر

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں