روزہ : ایک طبّی معجزہ 66

افسانچے

تحریر:ڈاکٹر نذیر مشتاق

الثــــرا مـــاڈرن

اب محمد سلطان عرف سلہ چاچہ اپنے گاؤں میں اکیلا رہتا تھا ۔۔۔۔۔اس کا اکلوتا بیٹا دلاور جسے سلہ چاچہ نے اپنی ساری زمین بیج کر اعلی تعلیم کے لئے ڈونیشن دیا تھا اب شادی کے بعد اپنے سسرال میں اپنی الٹرا ماڈرن بیوی کے ساتھ رہتا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ سلہ چاچہ اس کے گھر آیے کیونکہ وہ اپنی سہیلیوں اور رشتے داروں پر یہ راز ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی کہ اس کا سسر ایک انپڑھ دیہاتی ہے۔۔اس نے اپنے شوہر کو اپنا غلام اور اپنے باپ کی کمپنی میں جنرل منیجر بنایے رکھا تھا۔ اس کا شوہر کبھی باپ کی خبر نہیں لیتا گاؤں میں اس کی بیٹی اس کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتی ۔سلہ چاچا اب دن رات عبادت میں ‌گزارتا ۔۔اسے بیٹے کی یاد ستاتی رہتی مگر وہ کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔۔۔۔۔‌‌
آج وہ اپنی جھونپڑی کے سامنے دھوپ سینک رہا تھا کہ اس کے سامنے ایک لمبی چمکتی ہوی کار رک گیی۔ کار میں سے ڈرایور اترا اور اس سے کہا۔۔۔آپ‌کو اپنے بیٹے اور بہو نے بلایا ہے۔۔۔۔وہ حیران ہوگیا کہ آج پہلی بار ان کو میری یاد ‌کیسے آی۔۔۔۔وہ عالم تزبزب میں ڈرایور کے ہمراہ چلا۔ رستے میں بھی وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ پانچ برسوں کے بعد ان کو میری یاد کیوں آی۔۔شاید اب میرا بیٹا مجھے اپنے ساتھ ہی رکھے گا۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا
ڈرایور نے اسے اسپتال پہنچا دیا۔۔۔۔اسےمعلوم پڑا کہ اس کا بیٹا ایک سڑک حادثے میں زخمی ہوا ہے۔۔۔۔اس کی بہو نے روتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔آپ‌کے خون کا گروپ آپ کے بیٹے کے گروپ سے ملتا ہے آپ اپنے بیٹے کی زندگی بچانے۔۔۔۔۔۔۔۔
سلہ چاچہ نے بلا چوں چرا خون ڈونیٹ کیا دلاور پر یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ خون کس نے ڈونیٹ کیا اس کا بیٹا ہوش میں آیا مگر سلہ چاچہ بےہوش ہوگیا۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے معاینہ کیا تو پتہ چلا کہ سلہ چاچہ کوما میں چلا گیا ہے
اس کی بہو نے ڈاکٹر سے کہا۔یہ لیجیے آپ کا انعام خیال رہے کہ وہ کوما سے باہر نہ آنے پاے۔۔۔۔۔۔۔۔

فـــریـــبی

ڈاکٹر جمیل کی پوسٹنگ ایک دور دراز علاقے میں ہوی وہ مایوس اور پریشان ہوجاتا اگر اسے وہاں کے ہیلتھ سینٹر میں بارہ سال سے کام کر رہا میڈیکل اسسٹنٹ کشوری لال دلاسہ نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ کشوری لال نے ڈاکٹر کو سمجھایا ۔۔۔۔آپ‌کی‌پہلی پوسٹنگ ہے پہاڑی علاقہ ہے مگر لوگ آسودہ حال ہیں سرحد کے اس پار کے لوگوں کے ساتھ ڈرگس کا کاروبار کرتے ہیں اس لیے علاقہ بہت زرخیز ہے بہت مال کمایں گے آپ۔۔۔۔ڈاکٹر بھی بہت لالچی اور پیسے کا دیوانہ تھا اس لیے اس نے اس دور دراز پہاڑی علاقہ میں ڈیرا جمایا اور مریضوں کا خون چوسنے لگا۔۔۔۔اس رات وہ سویا ہوا تھا کہ چوکیدار نے اسے جگا یا علاقے کے سردار ‌کے اکلوتے بیٹے کے پیٹ میں شدید درد شروع ہؤا تھا۔۔۔۔اسے ایڈمٹ کیا گیا ڈاکٹر نے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔۔۔ موٹی اسامی ہے آپریشن کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے سردار سے کہا ‌تمہارےبیٹے کا آپریشن کرنا پڑے گا خرچہ کل ملا کر پچاس ہزار روپے۔۔۔۔
مریض کو آپریشن تھیٹر میں لے گیے اور درد کے انجکشن لگوایے گیے ڈاکٹر نے پیٹ کی اوپر والی جلد کی تہہ کاٹ کر دوبارہ سی لی اور پیٹ پر ڈھیر سارا کاٹن اور بنڈیج چپکایا تاکہ پتہ چلے کہ آپریشن ہؤا ہے ۔تھیٹر سے باہر آکر ڈاکٹر نے سردار سے کہا اپینذکس پیٹ میں پھٹ جانے کی وجہ سے پورے پیٹ میں زہر پھیل چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑا مشکل آپریشن تھا شکر کہ آپ کے بیٹے کی جان بچ گئی۔۔۔۔۔سردار نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھا یا۔ پورے پچاس ہزار ہیں۔
دوسرے دن ڈاکٹر مقامی بنک پر گیا اس نے منیجر کو روپے دے کر کہا۔ میرے اکاؤنٹ میں جمع کریں۔۔۔‌منیجر نوٹ گننے لگا اچانک وہ چونک گیا ‌اس نے حیرت سے کہا۔
ڈاکٹر صاحب یہ سارے نوٹ نقلی ہیں۔کس نے دئیے آپ کو۔۔۔۔۔ ڈاکٹر حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا۔ اس کی بیوی رو رہی تھی۔۔۔۔۔ہمارا بیٹا اسپتال میں داخل ہوا ہے ڈاکٹر کہتے ہیں اپینذکس پھٹ جانے کی وجہ سے سارے پیٹ میں زہر پھیل چکا ہے ایمرجنسی آپریشن کرنا پڑے گا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

چــــرسی

غنہ جرسی جو محلے میں بہت بدنام تھا مسجد کے نزدیک والے کوچے سے قہقہے لگاتے ہوئے گزر رہا تھا اور ایک خالی ٹین کے ڈبے کو ٹھوکریں مارتا ہوا لڑکھڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔‌‌مسجد کے اندر عشاء کی نماز کے بعد انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگ ہورہی تھی ۔۔۔۔نیا امام کم سے کم ‌تنخواہ پر استخدام کرنے پر غور وخوض ہورہا تھا ۔صدر نے زور دے کر کہا امام کو ہمارے تابع رہنا پڑے گا۔ہم اسے اپنی من مانی کرنے نہیں دیں گے۔۔سبھی ارکان اس بات پر متفق ہویے۔ مجلس برخاست ہوی۔۔۔ ایک کارکن نے باہر جانے سے پہلے مسجد کا جایزہ لیا۔۔۔۔۔۔ایک ادھیڑ عمر کا شخص ایک کونے میں گھٹنوں میں سر دبایے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔کارکن نے گرج دار آواز میں کہا۔ ارے او کون ہو تم اٹھو نکلو مسجد کے دروازے کو مقفل کرنا ہے
اس نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔میں ایک غریب مزدور ہوں صبح گھر سے کام کی تلاش میں نکلا تھا مگر کہیں کام نہیں ملا ۔میرا گھر بہت دور ہے اس لیے سوچا آج رات مسجد میں گزاروں ۔۔۔۔۔‌‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سن کر مسجد کا صدر اس کے نزدیک آیا اور غصے سے کہا۔۔۔۔یہ خدا کا گھر ہے کوی مسافر خانہ نہیں ہے ہم یہاں کسی کو ‌رات بھر رکنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔۔۔چلو اٹھو اور نکلو یہاں سے۔۔۔۔‌
وہ مسافر لڑکھڑاتے ہوئے مسجد سے باہر نکلا۔۔۔۔تھوڑی دور تک چل کر وہ گر پڑا۔ غنہ چرسی دھیرے دھیرے چل رہا تھا اس نے نے اسے گرتے ہوئے دیکھا اور قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ارے بھای زیادہ مت پیا کرو میری طرح۔۔۔کنٹرول۔ کنٹرول۔۔۔۔مسافر دھیرے دھیرے کھڑا ہوا اور غنہ چرسی سے کہا۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں پیا ہے میں صبح سے بھوکا پیاسا ہوں اسی لیے۔۔۔۔۔۔
اوہ اوہ تم بھوکے پیاسے ہو اور میرا پیٹ بھرا ہے کیسا کمبخت ہوں میں۔۔۔۔‌چل میرے بھائی چل میرے گھر تجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤں گا اور ہاں آج رات تم میرے مہمان ہو۔۔۔چل میرے بھای چل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد سے نکلنے والے افراد میں سے ایک نے ان دونوں کو ساتھ چلتے دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔لو آج غنہ چرسی پھر کسی اجنبی مسافر کو اپنے گھر لے جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔

بــــدلاو

آپ پیسوں کا انتظام کریں ہم اجمیر شریف جاکر منت مانگیں گے اللہ ہماری مراد ضرور پوری کرے گا ۔جمال‌میر اپنی بیوی کی ہر بات مانتا تھا اسے معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی گود ابھی تک سونی ہےاور وہ ایک بیٹے کے لیے ترس رہی ہے۔اس لیے وہ اسی وقت اپنے ایک آشنا صمد جان کے پاس گیا
مجھے بیس ہزار روپے ۔۔۔۔۔جمال‌میر‌نے بات ادھوری چھوڑ کر اس سے پوچھا۔۔کیا بات ہے تم بہت اداس ہو تمہاری آنکھوں میں آنسو۔۔۔۔۔۔ صمد‌میر نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔میری بیوی بستر مرگ پر ہے ڈاکٹروں نے جواب دیا ہے وہ دن رات ‌اپنے بیٹے کو ڈھونڈتی رہتی ہے وہ شہر میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے اسے کیی بار سندیسہ بھیجا مگر وہ نہیں آیا۔۔۔۔۔اس کی ماں دن رات روتی رہتی ہے وہ مرنے سے پہلے ایک بار اسے سینے سے لگانا چاہتی ہے مگر اس کا بیٹا ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے اپنی ماں کی آخری خواہش بھی پوری کرنے نہیں آرہا ہے میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں۔۔ یہ سن کرجمال میر اپنے اندر عجیب سی بیچینی محسوس کرنے لگا اس کا دل تیری سے دھڑکنے لگا اوروہ سینے میں درد محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔وہ اچانک کھڑا ہوا صمد جان نے تکیے کے نیچے سے روپیوں کا بنڈل نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔یہ لو پورے بیس ہزار ہیں۔۔۔۔۔ جمال میر نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھے اور کہا
اب‌مجھے ان روپیوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔
�����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں