120

نعیم صدیقی کا ادبی مقام

بہت ہی کم ادبی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں ایسی ہمہ گیریت رکھتی ہوں، وہ شاعر بھی ہوں، مضامین پر بھی بڑا درک ہو، افسانوں میں بھی کمال حاصل ہو، ان کی ذات دینی و مذہبی معلومات کا ذخیرہ لگتی ہو اور۔۔۔ ان سب کے علاوہ ہر تحریر صرف اس لیے نہیں لکھ دی کہ پڑھنے والے کو وقتی تسکین حاصل ہو جائے اور تھوڑی دیر کے لیے دل بستگی کا سامان ہو جائے بلکہ ہر تحریر، جہاں تسکین جاں کا سبب بنے، وہیں اس کے دل کے دروازوں پر دستک دیتی ہوئی محسوس ہو اور خیالات کو جگاتی اور ذہن کو بیدار کرتی چلی جائے۔
نعیم صدیقی ایسی ہی ہمہ گیر ادبی شخصیات کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ ایسے ادبی خاندان میں ایک بہت ہی نمایاں اور بلند مقام رکھتے ہیں تو یہ کہنا عین حق ہوگا۔ ہم جس معاشر میں سانس لے رہے ہیں اس کا المیہ یہ ہے کہ جو شخصیات اپنے ساتھ لاؤلشکر لے کر نہیں چلتیں، لو گ ایسی شخصیات کو کنجشک فرو مایہ بھی نہیں سمجھتے۔ خواہ وہ ادیب ہوں، شاعر ہوں، عالم ہوں، لیڈر ہوں یا کسی بھی معاشرے کے بہت اہم فرد ہوں، ان کے ساتھ خوشامدیوں کا ہجوم ساتھ نہ ہو تو کوئی انہیں در خور اعتناء بھی نہیں سمجھتا۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر ہر طبقہ فکر میں طبقات در طبقات کے عادی ہیں۔ چاہے ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے، ہم ان کو خانہ در خانہ کر تے چلے جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کو بھی ہم اپنے اپنے بنائے ہوئے ان چھوٹے چھوٹے خانوں میں فٹ کرنے ک بعد ان کے قد و قامت کی پیمائش کرتے ہیں۔
یہ خانے ہمارے خود تراشیدہ ہیں، کوئی خانہ قدیم انداز فکر شعرا و ادبا کا ہے اور کوئی خانہ جدید انداز فکر کا حامل ہے، کوئی قدیم انداز فکر میں لب و رخسار سے آگے بڑھنے کے لیے تیاروآمادہ نظر نہیں آتا اور کوئی جدیدیت میں برہنگی کی ساری حدود سے گزرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان ساری باتوں سے بڑھ کر کسی کی وابستگی اگر اپنے مذہب یا پھر کسی سیاسی اور مذہبی جماعت سے ہے تو اس کو پرکھنے اور جانچنے کے پیمانے بالکل ہی بدل جاتے ہیں۔
نعیم صدیقی کی شخصیت کے بہت سارے پہلو ہیں، وہ افسانہ نگاری بھی کرتے تھے اور اس پر ان کو کمال حاصل تھا، وہ مضامین میں بھی درک رکھتے تھے، ان کی دینی معلومات کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کی زندگی کا نمایا ں پہلو ان کی شاعری ہے۔ وہ ایک بہت بڑ ے شاعر تھے بلکہ ہیں، شاعر ہونا یا کوئی ادیب ہونا شاید اتنا بڑا کمال نہ ہو جتنا بڑا کمال اس کا صاحب اسلوب ہونا ہے بلکہ اس سے بڑی بات کہ اس کا کوئی ایک شعر بھی مقصدیت سے خالی نہ ہو اور مقصد بھی اتنا راست و پاکیزہ کہ اس کو پڑھنے اور سمجھ لینے کے بعد ذہن میں آندھی طوفان کی بجائے باد شمیم اور باد بہاری چلنا شروع ہو جائے اور تخیلات کے چمنستاں میں پھول ہی پھول کھلتے چلے جائیں، خوشبوئیں ہی خوشبوئیں مہک جائیں۔
اگر میں ایماندارانہ تجزیہ کروں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نعیم صدیقی اپنے ہم عصر شعراء میں سب سے بلند درجے پر فائز ہیں اور ان کو سب سے نمایاں کرنے والی بات یہ ہے کہ نہ تو ان کے پاس مضامین کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی شعر مقصدیت سے خالی ہے۔جناب ڈاکٹر انور سدید ایک جگہ فرماتے ہیں میں اُن (نعیم صدیقی) کا سلسلہ ادب متعین کرنے کی کوشش کروں تو یہ خواجہ میر درد، مرزا مظہر جانِ جاناں، مومن خان مومن، اکبر الہ آبادی، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، عبد الماجد دریا آبادی، مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تک پھیلا ہوا ہے۔“
اس تمہید میں میں نے مرزا غالب کا نام نہیں لیا جبکہ اگر ہم نعیم صدیقی کے کلام کا بغور مطالعہ کریں اور ان کی لفظی اختراعات کو سامنے رکھیں تو ہمیں ان کے کلام کے اندر غالب بہت نمایاں نظر آئے گا۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ جو اپنے لاؤلشکر (خوشامدیوں) کو ہمراہ لیکر پورے کرّ و فر کے ساتھ محو سفر نہیں ہوتا اس کو ہم کوئی بڑی شخصیت مانے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ آپ تصور کریں کہ ہمارے بڑے بڑے رہنمایان قوم اگر ہوائی چپل پہنے گوالمنڈی، زیرو پوائنٹ، عزیزآباد، نائن زیرو یا بنی گالہ میں میں خان صاحبوں کی اونٹی ہوئی چائے پیتے عوا م الناس کو نظر آجائیں تو کیا ان کو کوئی لیڈر ماننے کے لیے تیار ہو جائے گا؟
نعیم صدیقی سے نا شناسائی کی وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ایک سادہ مزاج انسان تھے اور جب جب بھی وہ کہیں جاتے تو وہ خود ہی اپنے ساتھ ہوتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ”روشن خیال“ ہونے کے باوجود مادر پدر آزاد روشن خیالی کا شکار نہیں تھے، ان کی ساری اصناف نہایت روشن خیالی کے باوجود، مالک حقیقی کہ قوانین اور اس کی مقرر کی ہوئی آزادی کی حدود سے تجاوز نہیں کرتی تھیں جس کی وجہ سے مادر پدرآ زاد خیالوں کی صفوں میں ان کو پسندید گی کی نگاہ سے کس طرح دیکھا جا سکتا تھا۔ جب ان کا ایسی صفوں میں دیکھا جانا ہی گوارہ نہیں تھا تو ایسی مجالس میں ان کا تذکرہ، ان کی شاعری اور دیگر کاوشوں کی گونج کیسے سنائی دے سکتی تھی؟
ایک ”المیہ“ ، دنیا پرستوں کی نظروں میں، ان کی جماعت اسلامی سے اساسی وابستگی بھی تھی جو میرے نزدیک نعیم صدیقی کے اپنی گردن کی جانب دو دھاری تلوار ثابت ہوئی۔ ایک تو یہ کہ شروع شروع میں جماعت اسلامی کے ہر فرد کے لیے عرصہ حیات اتنا کشادہ نہیں تھا جتنا اب نظر آتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی عدا لت کی نظر میں جماعت اسلامی کے سربراہ اور اس صدی کے سب سے بڑے عالم سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ جیسی شخصیت بھی اس قابل تھی کہ انہیں دار پر کھینچ دیا جائے۔ اس صورت حال میں ایک عام رکن یا کارکن کی کیا حیثیت ہو سکتی تھی، لہٰذا ایک عظیم شاعر کو دودھ کی مکھی کی طرح اپنے صفوں سے باہر رکھنا اور بھی آسان ہو گیا تھا۔ دوسری وجہ شاید خود جماعت اسلامی کے لوگوں کا بھی بہت بڑا قصور نعیم صدیقی اور ان جیسے اور باذوق لوگوں کو شہرت سے محروم رکھنا بھی ہو سکتی ہے۔ دیگر حلقوں میں آج تک یہ طریقہ کار رائج ہے کہ وہ اپنے حلقے والوں کے لیے بڑے بڑے مشاعروں، ادبی پروگراموں اور شاموں کا اہتمام کرتے ہیں اور کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہم نے اس شعبے کو جو موثر ترین شعبہ ہے، کچھ زیادہ ہی نظر انداز کیا جس کی وجہ سے بہت ساری خواتین و حضرات جو بہت کچھ کہہ گئے اور لکھ گئے، شہرت کی اس بلندی کو نہیں چھو سکے جو ہر لحاظ سے شہرت پاجانے والے شعرا اور ادباسے کہیں بہتر شاعر اور ادیب تھے۔
کسی بھی لکھاری، خاص طور سے شاعر کے لیے یہ بات بہت مشکل ہوتی ہے کہ وہ کسی کی خوشی، دکھ، کسک یا سینے میں اٹھتی ہوئی ٹیس کو اپنا جزو جسم وجاں بنالے، جب تک کوئی لکھاری یا شاعر کسی دوسرے کی خوشی و غم کو اپنی روح کی گہرائیوں تک نہیں اتارے گا اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ وہ اس کی ترجمانی اس طرح کر سکے لوگ یہ بات کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ اس نے غم و خوشی کا حق ادا کردیا۔ کوئی حادثہ ہو یا سانحہ، لازمی ہے کہ وہ لکھنے والے کے پورے پورے اور روئیں روئیں میں سرایت کر جائے تب ہی کہیں جاکے وہ لفظوں کو اپنا صحیح ترجمان کر سکتا ہے۔ کیاایسا ممکن ہے کہ گزرے ہوئے حالات کو سرسری انداز میں لے کر کوئی یہ کہہ سکے؟
یہ منظر بہار ہے یہاں لہو وہاں لہو

بدامن صبا لہو بصحن گلستاں لہو

گرا ہے جس پر خاک پر قیامتیں اٹھائے گا

یہ گرم گرم سرخ سرخ تازہ نوجواں لہو

ہر مسلمان کو اس کا علم ہوگا کہ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی تھی۔ ایسا لگا کہ مسجد اقصیٰ کو نہیں یہ آگ شاعر کے دل و دماغ کو لگا دی گئی۔ فرماتے ہیں کہ

یرو شلم یرو شلم

تو اک حریم محترم

ترے ہی سنگ در پے آج

منہ کے بل گرے ہیں ہم

تجھے دیا ہے ہاتھ سے

بزخم دل بچشم نم

پھر ایک بار آئیں گے

یہ جاں نثار آئیں گے

اجل کی دوش پر سوار شہسوار آئیں گے

بصد وقار آئیں گے

ترے وقار کی قسم

یرو شلم یرو شلم

نعیم صدیقی کو جس طرح اپنی نظموں میں اپنے جذبات یا کسی واقعے کی منظر کشی کے لیے الفاظ کے چناؤاور ان چنے ہوئے الفاظ کی مدد سے واقعات کی اٹھان میں ایک کمال حاصل تھا اسی طرح غزل کے ایک ایک مصرعے میں وہ اس بات کا پورا خیال رکھتے تھے کہ ہر لفظ مضمون کے اٹھان سے مطابقت رکھتا ہو اور قاری جب جب بھی اس کو پڑھے، چنے ہوئے سارے الفاظ اس کی روح تک اتر جائیں

نمود و نام نہ کچھ مال و جاہ رکھتے ہیں

بس ایک عظمت قلب و نگاہ رکھتے ہیں

نہ کیش زہد موافق نہ مشرب رنداں

جدھر بھی جائیں الگ اپنی راہ رکھتے ہیں

لو وہ میٹھی سی کسک آہ و فغاں تک پہنچی

کیسی معصوم سی تھی بات کہاں تک پہنچی

تھام کر باد بہاری کا چلی تھی دامن

آہ وہ آس کہ تھک تھک کے خزاں تک پہنچی

چلیے اس شوخ کے پھر ناز اٹھانے چلیے

پر مناسب ہے کسی خاص بہانے چلیے

انسان وہ ہوتا ہے جس میں زندگی کے سارے رنگ ہوں اور اتنے سارے رنگوں میں اوج ثریا سے بھی بلند یہ خوبی کہ کوئی بھی بات اللہ تعالیٰ کی مقر کردہ حدود سے باہر نہ ہو اس کے باوجود بھی یہ لگے کہ وہ سینہ سوز و گداز سے نکلی ہوئی ایک آواز ہے کسی سنگ کی نہیں، انسان ہے تو اس میں محبت کی کسک بھی ضرور ہوگی، لیکن اس کا ہر لفظ پاکیزگی کے تار میں پرویا ہوا محسوس ہوگا اور دل کی ہر دھڑکن کا شریک بن جائے گا

صبا گلوں کی جو لڑیاں پرونے لگتی ہے

تو اک عجیب کسک دل میں ہونے لگتی ہے

قفس میں جب بھی تصور چمن کا آتا ہے

کلی کلی ہمیں کانٹے چبھو نے لگتی ہے

یہ جانِ غم زدہ کچھ ایسی زخم خوردہ ہے

کہ بات بات پہ اب صبر کھونے لگتی ہے

ان سارے جذبوں میں کوئی ایک جذبہ بھی ایسا نہیں جو دھڑکنے والے دل کے لطیف جذبوں کی ترجمانی لیے ہوئے نہ ہو لیکن آپ دیکھیے کہ کوئی ایک بات بھی ایسی نظر نہیں آئے گی جو تمام تر جدیدیت کے با وجود ذہن نظر کی پاکیزہ مزاجی پر گراں محسوس ہوتی ہو۔

اگر میں یہ چاہوں کہ ان کلام کی خاص خاص باتیں بیان کروں اور پھر ان کے حوالے ان کے اشعار سے دو ں تو مضمون اپنی مضمونیت سے بڑھ کر تحقیقاتی مقالے کی صورت اختیار کر لے گا لیکن پھر بھی میں یہ ضرور چاہوں گا کہ ان کے کلام کی خاص خاص باتیں ضرور سامنے رکھوں۔ ان کے کلام میں ہمیں، ندرت فکر، خیالات کی لطافت، اداؤں میں جدت، زندگی اور غم زندگی کی سمجھ، پاکیزگئی عشق اور واردات محبت، عبادت، ایمان و آگہی جیسے موضوعات ملتے ہیں، غزل کے اشعار میں اس قسم کے موضوعات پر طبع آزمائی بلاشبہ ایک بہت ہی جاں فشانی کا کام ہے لیکن ہمیں سلام کرنا چاہیے نعیم صدیقی کی کوششوں اور کاوشوں کا جنہوں نے ان موضوعات کو اپنے کلام کی زینت بنایا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں