74

ریاست جموں و کشمیرکی شمالی سرحد ماضی تا حال کی سر گزشت

ڈاکٹر جاوید اقبال

ریاست جموں و کشمیر کی سوق الجیشی( اسٹریٹجک اہمیت ) اُس کی شمالی سرحد سے جڑی ہے۔یہ حقیقت گر چہ تجزیہ نگاروں کی نظروں میں ہمیشہ ہی عیاں رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں عوام الناس کی اکثریت بھی شمالی سرحد کی اہمیت و افادیت سے واقف ہوتی جا رہی ہے۔دیکھا جائے تو اُس کی وجہ شمالی سرحد سے گزرتی ہوئی وہ اقتصادی راہداری (سی پیک: CPEC) ہے جو چین و پاکستان کے مابین قائم ہوئی ہے۔وادی کشمیر گر چہ اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے لیکن اُس کی سوق الجیشی اہمیت اُن پہاڑی دورں سے وابستہ ہے جو کوہ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں پہ واقع ہوئے ہیں اور وادی کو دنیا کے اہم ترین ممالک سے ملاتے ہیں۔خط متارکہ کے آر پار کی ریاست کو نظر میں رکھا جائے تو کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں کے پہاڑی درے وادی کو ایشیا کی وسعتوں سے ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔قراقرم کے اُس پار چین ہے اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے قریب ہی پامیر و ہندو کش کے پہاڑی سلسلے کے اُس پار ایشائی مرکزی و افغانستا ن واقع ہوئے ہیں۔جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے کشمیر دینا کے حساس ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔
شمالی سرحد کی سوق الجیشی اہمیت کا اندازہ اُس برقیہ سے لگایا جا سکتا ہے جو 1947 ء میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ اٹیلی کے نام ارسال ہوا۔25 اکتوبر کے اِس مراسلے میں پنڈت نہرویہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ’’ کشمیر کی شمالی سرحد جو روس چین اور افغانستان سے ملتی ہیں بھارتی سیکورٹی کے لئے اہم ہے اور کشمیر میں امنیت اورایک مستحکم حکومت کا قیام بھارت کے لئے اہمیت کا حامل ہے‘‘۔قارئین یہ ذہن میں رکھیں کہ1947 ء میں جب یہ برقیہ ارسال ہوا روس ایشائی مرکزی کی مسلم ریاستوں پہ مسلط تھا۔ یہ تسلط 1990ء کے دَہے کے ابتدائی سالوں میں تب اختتام پذیر ہوا جب روس افغانستان میں پسپائی و رسوائی کا شکار ہوا۔ دیکھا جائے تو شمالی سرحد پہ بھارتی موقف کو برطانوی ہند (برٹش انڈیا:British India) کی ڈپلومیسی سے تحریک ملی۔ شمالی سرحد پہ اپنی موجودگی کو یقینی بنانا برطانوی سیاست کے اہم ترین احداف میں شامل رہا۔شمالی سرحد کے حصول کی چاہ نے بھارت کو یہ شہ دی کہ وہ کشمیر کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے کسی بھی حد تک جائے۔ جو بات پنڈت نہرو برطانوی وزیر اعظم کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے اُس سے لنڈن میں برطانوی خارجی سیاست کے زعماء واقف تھے بلکہ برطانوی حکومت کے اُن دفاتر میں جن کا تعلق ہندوستان سے رہا ہے فائلوں کی فائلیں کشمیر کی شمالی سرحد کے تذکرات سے بھری پڑی ہیں خاصکر انڈیا آفس میں جس کا ہندوستان سے متعلق امور سے براہ راست تعلق تھا اور آج بھی کئی تجزیہ نگار اِن فائلوں کی تلاش میں وہاں پہنچتے ہیں۔
25 اکتوبر 1947ء کے اُس برقیہ کے دو دن بعد 27 اکتوبر کو سرینگر کے ہوائی اڈے پہ بھارتی افواج اتر آئیں ۔کشمیر کی شمالی سرحد بھارتی سیکورٹی کے لئے حیاتی سمجھی گئی لیکن سچ تو یہ ہے کہ اُس کے حصول کی چاہت میں پنڈت نہرو نے اپنے برقیہ میںجو یہ ذکر کیا تھا کہ کشمیر میں امنیت اورایک مستحکم حکومت کا قیام بھارت کے لئے اہمیت کا حامل ہے کبھی بھی عملی نہیںہو سکا نہ کشمیر کو 1947ء سے یعنی پچھلے 70سال سے نہ ہی امنیت نصیب ہو سکی نہ ہی ایک مستحکم حکومت ہی وجود میں آئی۔رہی شمالی سرحد وہ ہندوستان و پاکستان کے بیچ تب تقسیم ہوئی جب فرہنگی میجر براؤن کی سر براہی میں گلگت سکاوٹس نے 31 اکتوبر 1947ء کے روز شمالی علاقہ جات، گلگت و بلتستان کو پاکستانی انتظامیہ میں شامل کر لیا ۔1948میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے کراچی اجلاس میں شمالی علاقوں ،گلگت و بلتستان کوبراہ راست پاکستانی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا چناچہ جہاں شمالی سرحد کا ایک حصہ لداخ بھارتی انتظامیہ کشمیر میں شامل ہوا وہی گلگت بلتستان کی انتظامیہ کو پاکستانی انتظامیہ کشمیر سے الگ رکھا گیا۔عرف عام میں پاکستانی انتظامیہ کشمیر کوآ زاد کشمیر کہتے ہیں ۔
شمالی سرحد کی کہانی 1947/48ء میں جو وقوع پذیر ہوا وہی تک محدود نہیں بلکہ اُس سے پہلے کی صدیوں پہ محیط ہے۔معروف فرہنگی تجزیہ نگار ہٹن بیک نے پہلے یہ پیشنگوئی کی تھی کہ پامیر کی بلندیوں کے آر پار چھوٹے ممالک ہمیشہ ہی بڑی طاقتوںکی سازشوں میں پھنسے رہیں گے اور وہ بڑی طاقتوں کے احداف کا شکار ہوتے رہیں گے۔ایک اور مغربی مصنف ای ایف نائٹ نے اپنی مشہور کتاب (جہاں تین سلطنتیں ملتی ہیں۔ Where Three Empires meet) میں پامیر کی بلندیوں کے اِس پار و اُس پار خونیں ڈرامے کی مفصل تشریح کی ہے۔یہ کتاب 1905ء میں شائع ہوئی اور تین سلطنتیں جو کتاب کا عنواں ہے برطانوی ہند ،روس و چین ہیں ۔جہاں روس نے ایشائی مرکزی کی مسلم ریاستوں کو دبوچ لیا وہی برطانوی ہند نے گلگت بلتستان پہ نظر رکھنے کی خاطر کشمیر کی ڈوگرہ دربار کی شاہی و بالا دستی کو اِس خطے میںنہیں چلنے دیا ۔ بہت سارے مبصروں کا یہ ماننا ہے کہ بد نام زمانہ بینامہ امرتسر میں جس پہ 16مارچ 1846ء پہ فرہنگی سرکار کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے دستخط کر کے تاریخ کشمیر کا ایک خونیں باب رقم کیا شمالی سرحد کا حصول شامل نہیں تھا۔بینامہ امرتسر کی دفعہ اول میں یہ ذکر ہوا ہے کہ لاہور سرکار نے دیارکشمیرو ہزارہ اور جمع ملک کوہستانی کو جو دریائے راوی و سندھ کے بیچ میں ہزارہ کی جانب واقع ہے اور جو مشرق سے دریائے سندھ و مغرب سے دریائے راوی مع علاقہ چمبہ ما سوائے لاہول کے واقع ہوا ہے منجملہ انگریزی سرکار کو عہد نامہ لاہور کی دفعہ چہارم مرقومہ ۹ مارچ 1846ء تحویل و تسلیم کیا اور وہ علاقہ جات مہاراجہ گلاب سنگھ کو نسل در نسل و پشت در پشت اُن کی اصلی مرد ا ولادوں کو ہمیشہ کیلئے مستقل اختیار کے ساتھ عطا کئے گئے۔ کئی تاریخ دانوں و سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں اِس میں گلگت شامل نہیں تھا جو کہ دریائے سندھ کے مشرق میں نہیں بلکہ شمال مغرب میں واقع ہوا ہے گلگت ہی کی مانند لداخ پر بھی اِس دفعہ کا اطلاق نہیں ہو سکتا بنابراینکہ لداخ دریائے راوی کے مغرب میں نہیں بلکہ شمال و شمال مشرق میں واقع ہوا ہے ۔
1858 ء میں غدر کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو اقتدار سے بر طرف کیا گیا تب تک یہ کمپنی تاج برطانیہ کی جانب سے ہند پہ مسلط تھی۔ غدر کے زمانے میں یہ کمپنی اپنی سختیوں و جابرانہ حرکتوں کی وجہ سے کافی بد نام ہوئی اور ایسے میں تخت برطانیہ پر فائض ملکہ وکٹوریہ نے ہندوستان کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لیا۔اِس کے بعد گلگت میں کئی تغیرات رونما ہوئے جن کی فہرست بشرح زیر ہے:
(۱) 1876ء۔لارڑ لیٹن کے دور اقتدار میں جب کہ وہ وایسرائے ہند تھے کیپٹن بڈ لف کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر کیا گیاتاکہ وہ سفارتی
مشن پر ہونزاروانہ ہو سکیں۔ گلگت کی منجملہ اکائیوں سے ہونزا پہ قبضہ جمانا و اُس قبضے کو بر قرار رکھنا مشکل ثابت ہو رہا تھا ثانیاَ َہونزاکے سرحد پار ممالک سے روابط تھے(سرحد پار کے ممالک سے مراد چین و روس ہے)
(۲) 1877ء۔کیپٹن بڈلف کوگلگت میں تاج برطانیہ کا پولٹیکل ایجنٹ بنایا گیا۔
(۳) 1880ء۔بغاوتوںو پسپائیوں نے برطانوی سرکار کو گلگت ایجنسی کے درجے میںکمی لانے پہ مجبور کیا۔
(۴)1889ء۔ کرنل ڈیورنڈ نے پامیر پہاڑی سلسلے میں روسی اقدامات کے بعد گلگت ایجنسی کو بحال کیا۔اُن کی کتاب ‘Making of a Frontier’ (ایک سرحد کی تشکیل) اُس زمانے کی روئیداد کی مکمل تفسیر ہے۔
(۵) 1893ء۔کیپٹن ینگ ہسبنڈ کو پولیٹیکل آفیسر چترال مقرر کیا گیا۔
(۶) 1895ء۔چترال کو کئی جنگی مہمات کے بعد زیر کر لیا گیا تب تک ڈاکٹر رابرٹسن پولٹیکل ایجنٹ بن چکے تھے اور پولٹیکل ایجنٹ اسبق کرنل ڈیورنڈ اُس زمانے کے وائسرائے و گورنر جنرل لارڑ الگن کے ملٹری سیکرٹری بن چکے تھے جنہوں نے کرنل ڈیورنڈ کو دربار منعقد کرنے کیلئے کہا جہاں چترال کے مہتر (راجہ کو چترال میں مہترکہا جاتا تھا) کومہاراجہ جموں و کشمیر کے تحت حاکم بنا یا گیاالبتہ چترال کو زیر نظر برٹش پولٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ رکھا گیا اِس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ چترال مغرب میں صوبہ سرحد سے ملتا ہوا علاقہ ہے اور دِھیر و سوات بھی مالا کنڈ پولٹیکل ایجنٹ کے تحت نظر رہتے تھے۔
(۷) 1935ء۔برطانوی راج نے گلگت کو مہاراجہ جموں و کشمیر سے 60 سال کے پٹے پہ حاصل کیاجو کہ ایک معاہدہ کے تحت ہوا ۔اِس معاہدے میں پہلے تو امضا کنندگان کے اسم گرامی مع القاب منعکس ہیں اور پھر منجملہ دفعات جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
دفعہ اول۔نواب وایسرائے و گورنر جنرل بہادر کشور ہند کو اختیار ہے کہ اس معاہدہ کو استحکام دئے جانے کے بعدکسی وقت وزارت صوبہ گلگت ریاست جموں و کشمیر کے اِس حصے کا ملکی و فوجی انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیویں جو دریائے سندھ کے پار اس کے داہنے کنارے پہ وا قع ہے (جس کا حوالہ متعاقب ـ ’’ملک متذکرہ بالا‘‘ کی اصلاح سے دیا جائیگا)لیکن باوجودشرائط معاہدۂ ہذا ملک متذکرہ بالاممالک محروسۂ ہز ہائی نیس مہاراجہ بہادر جموں و کشمیر کی حدود کے اندر شامل رئیگا۔
دفعہ دویم۔بہ ثبوت اس امر واقعہ کے کہ ملک متذکرۂ بالاممالک محروسہ ہز ہا ئی نیس مہاراجہ بہادر جموں و کشمیرکی حدود کے اندر شامل ہے بموقع سالگرۂ ہا ئی نیس و بتقریب بیساکھی و دسہرہ و بسنت پنچمی و بموقع دیگر ایسی تقریبوں کے جن کے متعلق فیمابین ہز ہائی نیس و نواب وایسرائے و گورنر جنرل بہادرکشور ہند اتفاق رائے ہو جائے افسران انتظامی کا فرض ہے کہ ملک متذکرہ بالا میںہز ہائی نیس کی سلامی کریں اور اعزازات مروجہ کی پوری تعمیل کرتے رہیں ۔ہز ہائی نیس کا جھنڈا سرکاری صدر مقام ایجنسی پر ہمیشہ قائم رہے گا۔
دفعہ سویم۔معمولی حالات میں سرکار برطانیہ کا کوئی افواج گورہ یا افواج ہندوستانی اس حصہ وزارت صوبہ گلگت کے اندر سے نہیں گذریں گی جو دریائے سندھ کے اس طرف اس کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔
دفعہ چہارم۔تمام حقوق متعلق معدنیات بحق ہز ہائی نیس مہاراجہ بہادر جموں و کشمیر ہیں مگر تلاش معدنیات کی اجازت یا اجرائے کام معدنیات کا ٹھیکہ بزمانہ اجرائے ہذا متذکرہ دفعہ آیندہ نہیں دیا جائیگا۔
1947ء میں جب ماؤنٹ بیٹن بر صغیر کی تقسیم کی پلان کو نئی شکل دی تو اُسی کے ساتھ اُنہوں نے گلگت کو مہاراجہ کو واپس کرنے کا اقدام کیا۔مہاراجہ ہری سنگھ نے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گلگت وزارت کا چارج سنبھالنے کے لئے بھیجا اور برطانوی گلگت ایجنسی کے افسر اعلی گلگت سکاوٹس کے میجر براؤن اُن کی ماتحتی کی صف میں آ گئے لیکن میجر براؤن کی مشکل یہ رہی کہ اُن کی ماتحتی میں گلگت سکاوٹس بغاوت پہ اتر آئے اور اُنہیں برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو حفاظتی حراست میں لے کے گلگت و بلتستان کو پاکستانی انتظامیہ میں شامل کرنا پڑا البتہ بھارتی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ ایک سامراجی چال تھی۔حقیقت جو بھی رہی ہو ریاست جموں و کشمیر کی شمالی سرحد کا اہم ترین حصہ پاکستانی انتظامیہ کے تحت ہے اور وہاں کی راہروں سے ایک نئی عالمی شارع وجود میں آ رہی ہے جس پہ عالمی تجزیہ نگاروں کی نظریں جمی ہوئی ہیںجبکہ بھارت کا یہ ماننا ہے کہ الحاق کشمیر کی رو سے یہ خطہ اُسکا حصہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کی سیاسی حثیت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ لے لے جو کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا ایک صوبہ بنانے پہ منتج ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کوئی حتمی فیصلہ لینے سے قاصر ہے چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی حثیت متنازعہ ہے۔ جموں و کشمیر کی شمالی سرحد آگے کیا رنگ لے گی اِس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ ریاست ایک حساس دور سے گذر رہی ہے اور شمالی سرحدگلگت بلتستان کے حالات جو بھی رخ لیں گے اُس کے دوررس اثرات خط متارکہ کی آر پار کی ریاست پر پڑیں گے چونکہ ماضی کے حالات گواہ ہیں کہ شمالی سرحد ریاست کا حساس ترین حصہ ہے اور یہاں کی افتاد کا اثر ساری ریاست پہ پڑتا ہے۔
Iqbal.javid46@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں